نہ جانے ان کی دعا میں کیا تاثیر تھی کہ ابھی دعا مانگ ہی رہے تھے کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی ایک خوان لیے کھڑا نظر آیا اور تینوں بزرگوں کا نام لے کر ان کے بارے میں دریافت کرنے لگا۔ یہ بڑے حیران ہوئے کہ پورے بغداد میں ہمیں جاننے والا تو کوئی بھی نہیں ہے۔
مشہور محدث اور مورخ حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے ”البدایہ والنہایہ“ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ روسی ترکستان کی طرف تین بزرگ رہتے تھے اور تینوں کا نام محمد تھا۔ ایک محمد بن جریر طبری جن کی تفسیر تفسیر ابن جریر کے نام سے مشہور ہے اور دوسرے محمد بن خزیمہ جو بہت بڑے محدث ہیں اور ان کی حدیث کی ایک مشہور کتاب ہے اور تیسرے محمد بن نصرالمروزی جو کہ بہت بڑے محدث ہیں قیام اللیل کے نام سے ان کی ایک تصنیف مشہور ہے۔
ان تینوں نے ابتدا میں اپنے شہر میں رہ کر علم حاصل کیا لیکن انہوں نے سن رکھا تھا کہ بڑے بڑے علمائ‘ محدثین‘ فقہاءاور مفسرین عراق کے دارالخلافہ بغداد میں رہتے ہیں۔ چنانچہ ان سے علم حاصل کرنے کا شوق ہوا لیکن کہاں ترکستان اور کہاں بغداد و عراق؟ بالآخر سفر کے ارادے سے جو کچھ بھی زاد سفر تھا لے کر بغداد کے طرف چل پڑے۔ خدا جانے کسی گھوڑے یا اونٹ پر یا پیدل ہی سفر طے کیا ہوگا۔
مہینوں کا سفر طے کرنے کے بعد ایسی حالت میں بغداد پہنچے کہ زادسفر ختم ہوچکا تھا۔ ایک حبہ بھی کھانے کیلئے موجود نہ تھا اور اس پر طرہ یہ کہ بغداد میں کوئی جاننے والا بھی نہیں کہ اسی کے پاس جاکر ٹھہر جائیں۔ شہر کے کنارے ایک مسجد تھی اس میں جاکر ٹھہر گئے اور آپس میں مشورہ کیا کہ زادسفر تو ختم ہوگیا ہے اور آگے جانے سے پہلے کھانے پینے کا بندوبست کرنا ہے اس لیے کہیں مزدوری کرتے ہیں تاکہ کچھ پیسے حاصل ہوجائیں اور کھانے پینے کا سامان مل جائے پھر کسی عالم کے پاس جاکر علم حاصل کریں گے۔چنانچہ یہ مزدوری کی تلاش میں نکلے لیکن کہیں مزدوری نہیں ملی سارا دن چکر لگا کر واپس آگئے۔ اسی حال میں تین دن فاقے کے گزرگئے اور کام نہ ملا۔ بالآخر تینوں نے مشورہ کیا کہ ایسی حالت ہوگئی ہے کہ اب اگر کچھ کھانے کو نہ ملا تو جان جانے کا اندیشہ ہے اور اس حال میں اللہ تعالیٰ نے سوال کرنے کو جائز قرار دیا ہے لہٰذا اب سوائے سوال کرنے اور کسی کے پاس جاکر اپنی حالت بیان کرنے کے کوئی چارہ کار نہ تھا۔
یہ تینوں بزرگ ایسے تھے کہ ساری عمر انہوں نے ایسا کام نہیں کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک جاکر یہ کام کرے۔ پھر سوال ہوا کہ کون کرے؟ تو قرعہ ڈالنے کی تجویز پر عمل کیا گیا۔ اس میں سے محمد بن جریر طبری رحمة اللہ علیہ کا نام آیا۔
محمد بن جریر رحمة اللہ علیہ نے کہا کہ قرعہ میں نام نکلنے کی وجہ سے جانا تو پڑے گا لیکن جانے سے پہلے دورکعت نفل پڑھنے کی مہلت دیدو۔ چنانچہ انہوں نے اجازت دیدی اور نماز پڑھنے کے بعد اللہ سے دعا مانگی کہ اے اللہ ! یہ ہاتھ آج تک آپ کی بارگاہ کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں پھیلے۔ آج ایسی مجبوری آپڑی ہے کہ اگر آپ نے اپنے فضل سے کوئی راستہ نکالا تو یہ ہاتھ کسی دوسرے کے سامنے نہیں پھیلے گا کیونکہ آپ ہر چیز پرقادر ہیں۔
نہ جانے ان کی دعا میں کیا تاثیر تھی کہ ابھی دعا مانگ ہی رہے تھے کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی ایک خوان لیے کھڑا نظر آیا اور تینوں بزرگوں کا نام لے کر ان کے بارے میں دریافت کرنے لگا۔ یہ بڑے حیران ہوئے کہ پورے بغداد میں ہمیں جاننے والا تو کوئی بھی نہیں ہے۔ ہم تو اجنبی اور مسافر ہیں‘ اس نے کہا کہ آپ کیلئے حاکم بغداد نے کھانا بھیجا ہے انہوں نے کہا کہ کھانا تو ہم بعد میں لیں گے لیکن یہ بتائو کے حاکم سے ہمارا کیا تعلق؟؟؟
تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ آج رات جب بغداد کا حاکم سویا تو اسے خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم کیسے حاکم ہو؟ تمہارے شہر کے اندر ہمارے تین مہمان ہیں‘ اس حال میں کہ ان پر تین دن سے فاقہ ہے اور ان کے کھانے کا کوئی انتظام نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا پورا پتہ اور نام بھی بتا دیا۔
اس کے بعد حاکم بغداد نے بیدار ہونے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مجھے یہ کھانا دے کر آپ حضرات کی خدمت میں بھیجا ہے۔ یہ ابھی دعا سے فارغ نہ ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرما دیا۔
اصل بات تو یہ ہے کہ یہاں مانگنے کی دیر ہے اور حقیقت میں ہم مانگنا بھی نہیں جانتے۔ مانگنا آجائے تو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔
کوئی جو ناشناس عطا ہو تو کیا علاج؟
ان کی نوازشوں میں تو کوئی کمی نہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں